Wednesday, 2 January 2013

ایک سعودی عرب بدنصبیب لڑکی کی داستان

میری ایک سہیلی نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی میری وہ سہیلی ان لوگوں میں سے ہے جو انٹرنیٹ کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔اس نے میرے دل میں اس دنیا کو دیکھنے،اسے جاننے اور استعمال کرنے میں رغبت و شوق کو خوب بھڑکا دیا۔اس نے مجھے تقریباَ 2ماہ میں ہی یہ سب کچھ سکھلا دیا کہ انٹرنیٹ کو کیسے استعمال کرنا ہے؟اب میرے شوق کا یہ عالم ہوگیا کہ میں بکثرت استعمال اس کے گھر جانے لگی تھی۔
میں نےاس سے چیٹنگ کرنا سیکھ لیا،میں نے یہ بھی سیکھ گئی کہ کمپوٹر کو کیسے کھولنا اور انٹرنیٹ میں کیسے داخل ہونا ہے ان 2 ماہ کے دوران میری اپنے شوہر سے ہر وقت جنگ چھڑی رہتی کہ وہ گھر میں انٹرنیٹ لگوائے لیکن وہ اس چیز کے خلاف تھا۔
یہاں تک میں نے اسے یہ کہہ کر قائل کر لیا کہ تمہارے کام پر چلے جانے کے بعد میں بہت تنہائی محسوس کرتی اور سخت اکتاہت میں مبتلا رہتی ہوں خصوصاَ جب ہم گھر والوں سے بھی دور ہیں۔میں نے دلیل یہ دی کہ میری تمام سہیلیوں کے پاس انٹرنیٹ کنکشن ہے وہ اسے استعمال کرتی ہیں میں کیوں نہ استعمال کروں اور ان سے گپ شب نہ کروں جب کہ وہ ٹیلیفون سے بہت سستا ہے۔آخرکار میرشوہر قائل و رضامند ہوگیا مگر کاش کہ نہ ہوا ہوتا۔
میں نے روزانہ اپنی سہیلیوں سے چیٹنگ کرنا شروع کردیا اس کے بعد میرے شوہر کو میری طرف سے کوئی شکوہ و شکایت اور پریشانی نہ رہی۔وہ جیسے ہی گھر سے نکلتا میں دیوانہ وار شدید شوق و شغف کیساتھ انٹرنیٹ کی طرف لپکتی میں کئی کئی گھنٹے تک طویل اوقات کے لیے بیٹھی رہتی۔
اب تو میں یہ تمنا کرنے لگی کہ میرا شوہر زیادہ سے زیادہ باہر رہا کرے میں اپنے شوہر سے پیار کرتی ہوں اور اس نے بھی میرے کسی معاملہ میں کبھی کمی و پیشی و کوتائی نہیں برتی۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس کی مالی حالت میری بہنوں اور سہیلیوں کے مقابلے میں پتلی تھی مگر وہ میری سعادت و خوشی کے لیے بھرپور محنت دوڑ دھوپ کرتا رہتا ہے۔
مرورِ ایام اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں محسوس کرنے لگی کہ انٹرنیٹ میرے لیے زیادہ سے زہادہ دل بہلانے کا ذریعہ بنتا جارہا ہے،میری حالت یہ ہوگئی کہ اب میں اپنے والدین کو ملنے کےلیےجانے میں بھی کوئی دلچسپی نہ لے رہی تھی۔جب کہ اس سے قبل ہم ہر 15دن کے بعد ملنے کے لیے جایا کرتے تھے۔
جب کبھی اچانک میرا شوہر گھر داخل ہوجاتا تو میں گھبرا اٹھتی اور انٹرنیٹ میں موجود ہر چیز کو کچھ اس افراتفری میں بند کرتی کہ اسے میرے فعل پر تعجب ہوا کرتا تھا لیکن اس مجھ پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں تھا بلکہ وہ تو یہ چاہتا تھا کہ وہ دیکھے کہ میں انٹرنیٹ پر کیا کرتی ہوں اور اس سے کس طرح دل بہلاتی ہوں؟ ہوسکتا ہے کہ یہ محض ایک چھوٹی سی بات ہویا شایدیہی غیرت ہے کہ ایک دن جب اس نے لائیو چیٹ کرتے ہوئے کسی کی آواز سن لی تھی جسے میں اپنے تمام تر احتیاطی کوششوں اور ہوشیاریوں کے باوجود اس سے چھپانہ سکتی تھی۔
اس دن کے بعد وہ کبھی کبھار مجھ پر مجھ پر خفگی کا اظہار کرتا رہتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ انٹرنیٹ حصول معلومات کا وسیع میدان ہے لیکن یہ وقت ضائع کرنے کا باعث بھی ہے۔
وقت گذرتا گیا اور میں روز بروزنت نئے لوگوں سے چیٹ کی گرویدہ و دلدادہ ہوتی گئی۔بچوں کی تربیت و پرورش کا مسئلہ میں نے نوکرانی پر ڈال دیا۔یہ تو میں جانتی ہی تھی کہ میرا شوہر کب گھر آتا ہے لہذا اس کی آمد سے پہلے پہلے میں کیمپوٹر و انٹرنیٹ سب آف کرکے رکھ دیا کرتی۔
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں نے اپنے بناؤ سنگھار سے لاپرواہی برتنا شروع کردی تھی۔ اس انٹرنیٹ میں داخل ہونے سے پہلے میں اپنے شوہر کے گھر آنے پر بن سنور کر اچھی صورت اختیار کرلیا کرتی تھی لیکن اب میرا بناؤ سنگھار کم ہوتے ہوتے ختم ہی ہوگیا۔میں انٹرنیٹ کی اس حد تک دیوانی تھی کہ اپنے شوہر کے سوجانے پر چپکے سے چوری چھپے اٹھ کر انٹرنیٹ کمپوٹر والے کمرے میں چلی جاتی اور اس کے اٹھنے کے وقت سے پہلے پہلے چپکے سے دوبارہ بستر پر آ دبکتی تھی۔
کچھ عرصے کے بعد اسے شاہد احسا ہوگیا کہ میں انٹرنیٹ پر بلا وجہ وقت ضائع کرتی رہتی ہوں لیکن وہ مجھ پر ترس کھاتا رہا کہ بیچاری اکیلی ہے،والدین اور بہن بھائیوں سے بھی دور ہے اور میں اس کے مشفقانہ جذبات سے خوب خوب ناجائز فائدہ اٹھایا،وہ اس بات پر ناراض ہوتا کہ میں بچوں کے بارے میں لاپرواہی برت رہی ہوں اور اس بات کو لے کر اس نے مجھے کئی دفعہ ڈانٹ ڈپٹ بھی کی جس پر میں جھوٹ موٹ رونے لگتی اور اسے کہتی کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بعد گھر میں کیا ہوتاہے۔میں ان کا بہت خیال رکھتی ہوں،ان کی تربیت وپرورش پر بڑا وقت صرف کرتی ہوں مگر یہ ہیں کہ سارا دن شرارتیں کرکر کے مجھے تھکا دیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ میں ہر چیز سے لاپرواہی یہاں تک کہ شوہر سے بھی پہلے میری حالت یہ ہوتی کہ میں اس کے گھر سے باہر ہونے کی صورت میں دسیوں مرتبہ اسےفون کیا کرتی تھی اور صرف اس کی آواز سننا چاہتی تھی۔اب جب سے انٹرنیٹ نے گھر میں قدم ڈال لیا اور میری زندگی میں داخل ہوگیا اب وہ میری آواز بھی سن نہ پاتا تھا سوائے اس کے گھر میں کسی خاص چیز کی ضرورت پیش 
آجائے تو اس کو کبھی کبھار فون کرنے کی نوبت آگئی۔
اب میرے شوہر کو انٹرنیٹ پر بہت غصہ آنے لگا تھا۔6 ماہ اسی حالت میں ہی گزر گئے،میں نے کئئ مستعار ناموں کے ساتھ لوگوں سے تعلقات پیدا کرلیے اور یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ نام مردوں کے ہیں یا عورتوں کے کہ چیٹنگ کے تھرو جو بھی مجھ سے۔۔۔۔بات کرتا میں اسی سے گفتگوکرنا میں اسی ست گفتگوکرنا شروع کردیا کرتی تھی حالانکہ میں جانتی بھی تھی کہ یہ بات کرنے والا مرد ہے۔
ہاں!
ایک شخص ایسا تھا جس کی طرف میں بہت مائل ہوگئی ۔مجھے اس سے بات کرنا اچھا لگتا اس کی ظریفانہ گفتگو کے لطائف و نکتے پسند آتے اس کی باتیں بڑی دلچسپ اور جی کو لبھانے والی ہوتیں۔
دن گزرتے گئے اور ہم دونوں کے باہی تعلقات گہرے سے گہرے ترین ہوتے چلے گئے ان تعلقات کے قائم ہونے میں 3 مہینے لگےوہ مجھے اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اپنی طرف کھینچتا چلا گیا اس کی گفتگو کے ہر ہر لفظ سے پیار محبت کے پیمانے چھلکتے تھے اس سے شوقِ دیدار دو آتشہ ہوتاگیا۔ہوسکتا ہے کہ اس کے الفاظ تو اس حد تک خوبصورت نہ ہوں تاہم شیطان انہیں میرے سامنے خوب مزیں کرکے پیش کرتا رہا۔
آج تک ہماری ساری کی ساری گفتگو چیٹنگ کے ذریعے صرف تحریری تھی ۔ایک دن اس نے میری آواز سننے کا مطالبہ کیا جسے میں نے رد کردیا۔اس نے بڑا ہی اصرار کیا حتی کہ پھر اس نے دھمکی دینا شروع اگر میں نے آواز نہ سنائی وہ تحریری گفتگو بھی بند کردے گا نہ چیٹ اور نہ ہی میل کرے گا۔
میں نے اس کے اس مطالبے کو ٹالنے اور اپنی رائے پر ڈٹے رہنے کی بہت کوشش کی مگر میں اس پر قائم نہ رہ سکی، پتہ نہیں کیوں ؟یہاں تک کہ میں نے حامی بھرلی اور ہم اس پر متفق ہوگئے کہ صرف ایک ہی مرتبہ آواز سے گفتگو ہوگی اب کے ہم نے آواز والی گفتگو کا ذریعہ اختیار کرلیا۔
اگرچہ مطلوبہ سسٹم اتنا معیاری نہیں تھا تاہم اس کی آواز بہت ہی پیاری اور اس کی گفتگو انتہائی شیریں اور دل لو موہ لینے والی تھی۔اس نے بتایا کہ تمہاری آواز صاف نہیں آرہی ہے لہذا تم اپنا موبائل نمبر دو میں نے اس سے انکار کردیا۔
مجھے تعجب اس کی اِس جرت پر ہوا جب کہ میں دیر تک اس سے گفتگو کرنے کی ہمت بھی نہ پاسکی۔
اللہ کی قسم !!!!!
میں جانتی تھی کہ شیطان مردود میرے سر پر سوار تھا وہ مجھے اس کی آواز سنوا میرے دین اخلاق اور عفت وعصمت کے بکھیرنا چاہتا ہے۔انہیں بھی چھیننا چاہتا تھا یہاں تک کہ وہ دن آگیا میں نے اس سے فون پر بات کی اس دن میری زندگی میں انحراف و کج روی شروع ہوگئی میں آہستہ آہستہ اس راستے پر بہت آگے نکل گئی میں اس سلسلہ میں بات کو طول نہیں دیتی ۔جو شخص میرا یہ قصہ پڑھے گا وہ یہی سمجھے گا کہ میرا شوہر میرے بارے میں لاپروا تھا۔وہ گھر سے بکثرت غائب رہاکرتا تھا نہیں بلکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے جب وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور وہاں سے سیدھا گھر آجاتا تھا ،وہ میری خاطر اور میرے بچوں کے خاطر اپنے دوستوں کے پاس بھی کم جایا کرتا تھا۔
مرورِایام کیساتھ اور گردش شب وروز نے بعد میں انٹرنیٹ میں روزِافزوں مہارت حاصل کرتی گئی اوراس سے میں میرا شغف بڑھتا گیا حتی کہ میں روزانہ 8گھنٹے تک انٹرنیٹ ہر رہتی اب مجھے اپنے شوہر کا زیادہ گھر میں رہنا بھی برا لگتا تھا بلکہ میں اس پر اسے کئی دفعہ الٹی سیدھی بھی سنا چکی تھی۔
میں نے اسے یہ سبق دینے اوع اس سلسلہ میں اس کی حوصلہ آفزائی کرنے لگی کہ وہ پارٹ ٹائم بھی کوئی کام کرلیا کرے تاکہ قرضوں سے ہماری جان چھوٹے اور مختلف قسطوں کی ادائیگی کے لامتائی سلسلہ سے خلاصی ملے،واقعی اس نے میری یہ بات بھی مان لی اور اپنے کسی دوست کے کسی چھوٹے سے کاروبار میں حصہ دار بن گیا۔
اس کے بعد تو میں اپنازیادہ سے زیادہ وقت انٹرنیٹ پر ہی گذارا کرتی تھی۔کبھی کبھی وہ ٹیلیفون اور نیٹ کے کنکشن کے بلوں پر سٹپٹا جاتے تھے جو بعض دفعہ ہزاروں ریال تک آجاتے تھے لیکن وہ مجھے اس سے روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔اس آشنا کیساتھ میرے تعلقات رو بروز گہرے ہوتے گئے۔جب کئی مرتبہ اس نے میرے آواز سن لی بلکہ خوب دل بھر 
کر سن لی تو اس نے اصرار ومطالبہ کرنا شروع کردیا کہ وہ مجھے دیکھنا چاہتا ہے۔
جب کئی مرتبہ اس نے میرے آواز سن لی بلکہ خوب دل بھر کر سن لی تو اس نے اصرار ومطالبہ کرنا شروع کردیا کہ وہ مجھے دیکھنا چاہتا ہے مجھے اس کے اس مطالبے کی کوئی خاص پرواہ نہ تھی اور نہ ہی میں میں نے اس سے تعلق منقطع کرنے کی سوچی بلکہ میں تو صرف اس کے مطالبے پر اپنی خفگی ظاہر کردیاکرتی جب کہ درحقیقت میں بھی اس کے دیدار کی اس سے زیادہ تمنا رکھتی تھی لیکن ڈرتی تھی کہ مجھے اجازت نہیں ملے گی اس کا اصرار بڑھتا گیا وہ مجھے دیکھنا چاہتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں میں نے اس کا یہ مطالبہ ایک شرط پر قبول کرلیا کہ ہماری یہ پہلی اور آخری ملاقات ہوگی۔ہم نے باہم یہ عہدہ وپیمان کرلیا اور پھر ایک مارکیٹ میں ملاقات کی ہم دونوں کے مابین تیسرا شیطان لعین بھی تھا۔حقیقی بات تویہ ہے کہ مجھے وہ پہلی نظر میں بھاگیا بلکہ شیطان نے اسے میری نگاہوں میں خوب مزیں کردیا،میرا شوہر بدصورت تو نہیں تھا لیکن شیطان حرام کو بنا سنوار کر پیش کرتا ہے۔
ہم دونوں باہم مل کر اپنی اپنی راہ چلے گئے مگر اس ملاقات کے بعد ہمارا تعلق روز بروز قوی سے قوی ترہوگیا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ میں شادی شدہ ہوں بال بچوں والی ہوں۔اس کے بعد بھی اس نے مجھے کئی مرتبہ دیکھا اور ملاقات کی۔آہستہ آہستہ اسے میرے بارے میں تمام باتیں معلوم ہوگئیں۔اس نے مجھے اس مقام پر لاکھڑاکہ میں اپنے شوہر سے نفرت کرنے لگی بالآخر اس نے میرے سامنے یہ مشورہ رکھ دیا کہ میں اپنے شوہر سے طلاق لے لوں وہ مجھ سے شادی کرلے۔
میں اپنے شوہر سے نفرت کرنے لگی تھی۔میں نے اب روز بروز نت نئے مسائل کھڑے کرنا شروع کردئیے تاکہ کسی طرح وہ مجھے طلاق دےدے۔
اک دن میرے شوہر نے بتایا کہ وہ کاروباری سلسلہ میں 5دن کے لیے باہر جارہا ہے اس نے مجھے مشورہ دیا کہ بچوں کے ساتھ اپنے میکے والوں سے مل آؤں۔میں نے سوچا کہ اپنے آشنا سے کھل کر ملنے کا یہ مناسب وقت ہے۔میں نے اپنے میکے جانے سے انکارکردیا ناچار میرا شوہر راضی ہوگیا۔
جمعہ کا دن وہ5دن کےلیے سفر پر روانہ ہوگیا۔اس کی روانگی کے بعد ایک دن چھوڑ کر اتوار کو ہم نے ملاقات طے کی ۔میں نے اس شیطان صفت شخص سے ایک مارکیٹ میں ملاقات کرنے کا وعدہ کیا۔میں اس کیساتھ گاڑی میں سوار ہوگئی وہ مجھے مختلف سڑکوں پر لیے گھماتا رہا۔یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ میں کسی اجنبی کیساتھ باہر گئی تھی اس لیے میں کچھ قلق و اضطراب اور پریشانی میں مبتلا تھی۔میں نے اس سے کہا میں گھر سے زیادہ زیادہ دیر باہر نہیں رہ سکتی۔مجھے ڈر ہے کہ میرا شوہر کہیں فون نہ کرے یا کوئی واقعہ نہ رونما ہوجائے۔اس نے یہ سن کر کہا کہ وہ تمہیں طلاق دے دے گا۔اس طرح تمہاری جان ہی چھوٹ جائے گی۔مجھے اس کی یہ بات اور آواز کی ٹون پسند نہ آئی میں مزید پریشان ہوگئی میں نے اس سے کہا وہ دور ہرگز نہ جائے ،میں گھر سے زیادہ لیٹ نہیں ہوجاچاہتی۔
اس نے مجھے باتوں میں الجھا شروع کردیا ناگاہ میں ایسی جگہ پر تھی جسے میں جانتی نہیں تھی۔وہ جگہ اندھیری تھی کوئی باغیچہ یا فورم ہاؤس لگتا تھا۔یہ کون سی جگہ ہے؟تم مجھے کہاں لے جارہے ہوں؟؟؟؟میں نے اس سے پوچھا۔
چندہی لمحات گذرے تھے کہ گاڑی گھڑی ہوگئی اور کوئی دوسرا ہی شخص میری سائیڈ کا دروازہ کھول کر مجھے زبردستی گاڑی سے باہر کھینچ رہا تھا تیسرا شخص بھی فارم کے اندر تھا میں نے ایک چوتھے آدمی کو بھی بیٹھے دیکھا۔اس جگہ عجیب قسم کی بوئیں اٹھ رہی تھیں۔ہر چیز مجھ پر بجلی بن کر گر رہی تھی۔میں چلائی روئی منتیں سماجتیں کرکے اس سے رحم کرنے اور ترس کھانے کی اپیل کی میں نے اپنے منہ پر زناٹے دار محسوس کیا اور کوئی آواز مجھ پر چلا رہی تھی اس آواز اور طمانچے نے نہ صرف مجھے ہلا کر رکھ دیا بلکہ میں خوف وہراس کے نتیجے میں اپنے ہوش ہی کھو بیٹھی تھی۔اب میرے ساتھ جوہوا سوہوا کچھ دیر بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں سخت مرغوب تھی۔
میرے سارے جسم پر رعشہ طاری تھا میں لمحہ بھر کے لیے رونے سے نہیں رک رہی تھی۔انہوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور گاڑی میں ڈالا اور میرے گھر کے قریب ایک جگہ مجھے پھینک گئے۔میں بھاگم بھاگ گھر میں داخل ہوگئی اب میرا ایک کام تھا رونا بس روتے ہی رہنا حتی کہ میرے آنکھوں سے آنسو خشک ہوگئے میں ہر وقت اپنے کمرے میں ہی پڑی رہتی مجھے آپنے آپ سے نفرت ہوگئی۔
میں نے خودکشی کی کوشش کی،گھر میں ہوتے ہوئے بھی اپنے بچوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی،نہ ہی مجھے ان کی موجودگی کا احساس ہوتھا تھا،میرا شوہر سفر سے واپس لوٹ آیا،میری حالت اتنی بری ہوچکی تھی کہ وہ مجھے زبردستی ہسپتال لے گیا ڈاکٹروں نے مجھے آرام و سکون بخش دوائیں دیں۔میں نے شوہر سے التجا کہ وہ مجھے جلد ازجلد میرے میکے لے جائے،میں بہت روتی تھی اور میرے گھر والے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ میرے شوہر سے کسی وجہ سے ناچاقی ہوگئی ہے۔
میرے والد نے میرے شوہر سے افہام و تفہیم کی کوشش کی لیکن وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچے کیونکہ میرے شوہر کو دراصل کسی بات کا علم نہیں تھا اور نہ کیس دوسرے کو مجھ پر بیتنے والے سانحہ کی خبرتھی۔ان گھٹیا لوگوں نے مجھے کس بڑی ذلت میں مبتلا کردیا تھا ۔
اب میں یہ کلمات انتہائی نقاہت کے عالم میں فراشِ مرض پر پڑی لکھ رہی ہوں جو ہوسکتا ہے میرے لیے بسترِ مرگ بن جائے۔شائد میری یہ داستان عبرت انٹرنیٹ پر دوستیاں کرنے اور چیٹنگ کی شوقین لڑکیوں کی اصلاح کا سبب بن جائے اور میرے گناہوں کا کفارہ بن جائے اور آخرت میں میری نجات ہوجائے۔

یہ داستان سچ ہے یا جھوٹ پتہ نہیں
 لیکن یہ ضرور سچ ہے کہ انٹرنیٹ میںچیٹنگ کی دنیا اس سے بھی بدتر ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو ہدایات دیں۔آمین

No comments:

Post a Comment